ہم جب اپنے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر نظر دوڑاتے ہے تو ہمیں یہ نظر آنے کو ملتا ہے کہ مختلف شعبہ جات سے وابستہ افراد نادانستہ طور پر اپنے علاقے یا شعبہ کے ان افراد  کو اقارت کے نظروں سے دیکھتے  ہیں جو کہ معاشی طور پر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں. اس کے حقارت  کا معیار فطری طور پر تو طبقاتی ہوتا ہے لیکن عملی طور پر وہ اس کا اظہار کسی اور بنیاد پر کرتے ہیں.
        ویسے تو ہم جب ایسے حضرات کے محفل میں  ب
یٹھتے ہیں جو صاحب حیثیت ہو تو ان کی گفتگو غریبوں سے ہمدردی اور غربت کے خاتمے سے شروع بھی ہوتی ہے اور اختتام پذیر بھی. لیکن عملی طور پر جب کوئی غریب آدمی دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے کسی شعبہ سے وابستہ ہوتا ہے تو یہی  لوگ  اسے حقارت کے نظروں سے دیکھتے ہیں. اور کافی جگہوں پر   معاشرے کی  نظروں میں اس کا  ذریعہ معاش بھی   سماجی اخلاقیات کے منافی نظر آتا ہے.
       لیکن یہاں میں اس بات کو پھر سے دہرانا چاہتا ہوں کہ نظر تو یہی آتا ہے کہ مسئلہ اس شعبے سے ہے جس سے وہ انسان  وابستہ ہوتا ہے پر فطرتاً مسئلہ اس کے غریب ہونے سے ہوتا ہے اور اسے حقارت سے دیکھنے کی وجہ بھی غربت ہوتی ہے.
اگر  آپ جب کسی سیاسی جلسے میں جائے وہاں ایک ایسا سیاست دان جو کہ سب کو معلوم ہو کہ بدعنوانی میں ملوث ہے   اور عام لوگوں کے قتل و غارت کے الزامات بھی اس پر ہو  تب بھی لوگ اس پر پھول پینک رہے ہوں گے اور کچھ تو اس کے جوتے سیدھے کر رہے ہونگے لیکن اسی جلسے میں کوئی ڈول بجانے والا اگر ہو تو سب اس سے دور رہیے گے کہ یہ تو ڈول بجاتا ہے اور ایک انتہائی غلط شعبے سے تعلق رکھتا ہے.
 تنگ نظر معاشروں  میں لوگ موسیقی کو سن کر پہلے تو لطف اندوز ہوتے ہیں پر پھر انہیں لوگوں کو نا مناسب ناموں سے نوازتے ہیں پہلے جن کے ڈول کے تاپ پہ اپنے روایتی رقص کرکے اپنے قدیمی ثقافتی ورثے پہ فخر کیا جاتا ہے.ں.
ایک انسان جو معاشی طور پر کمزور ہو اسکے سو اچھائیوں کے بعد بھی اگر وہ نادانستہ طور پر کوئی غلطی کرے بنا وقت ضائع کیے اسکے خاندانی ہونے پر سوال اٹھا دیا جاتا ہے. پر کوئی معاشی طور پر مضبوط انسان ہزار غلطیوں کے بعد کوئی ایک اچھا کام کرے تو بنا وقت ضائع کیے اسکو خاندانی ہونے کی سند  دے دی جاتی ہے کہ دیکھو کتنا اچھا انسان ہیں اور خاندانی انسان آخر خاندانی ہوتا ہے.اخباری اشتہارات سے لے کر سوشل میڈیا کے صفحات  ہر جگہ پھر  ان لوگوں کے گن گاہے جاتے ہیں.
آج کے جدید سائنسی دور میں جب انسان علم کی ان بلندیوں تک پہنچ چکی ہے جہاں کسی ایک انسان کے دوسرے انسان سے کمتر یا بالاتر ہونے کے باتیں  معز خام خیالی لگتی ہے پر آج بھی دنیا میں انسان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے. پھر جو معاشی اعتبار سے مضبوط ہو وہ پھر اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے کہ وہ کمزور معاش کے لوگوں پہ حکومت کرے اور ساتھ ساتھ یہ بھی احساس دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ چند لوگ باقی لاکھوں کروڑوں لوگوں پہ امتیاز رکھتے ہیں لحظہ انہیں  پورہ حق ہے  اپنے سے کمزور معاش رکھنے والوں پہ حکومت کرنے کا.


معاشی طور پر کمزور طبقے کو معاشرتی طور پر نیچ تصور کیا جاتا ہے. پھر ان لوگوں کے زندگی کے ہر پہلو میں نقص نکالنے کی کوشش کی جاتی ہیں. ان کے کھانے پینے سے لے کر لباس اور رسم و رواج کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے. پھر انہیں ایسے نہج پہ لا کھڑا کیا جاتا ہے جہاں وہ پھر معاشی طور پر طاقت ور لوگوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے لگتے ہیں. پھر یہ طاقت ور طبقہ بہ زور شمشیر انہیں زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے پھر یہ دونوں طبقات آمنے سامنے نظر آتے ہیں.
 معاشی طور پر انسان اونچے  ، درمیانی اور نچلے درجے میں تقسیم کیے جاتے ہیں. اونچے  طبقے کے منفی باتوں پہ گفتگو ہو رہی ہے پر درمیانی طبقے کے جو منفی رجحانات ہوتے ہیں وہ انسانی تقسیم میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے. بقول کارل مرکس درمیانی طبقے کے نظریں آسمان پر ہوتی ہے اور پیر کیچڑ میں. یہ ایک حد تک خود کو بالاتر سمجھتے ہیں پھر اونچے طبقے کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں.
لحظہ دنیا میں اس وقت تک برابری کی باتیں کرنا بے معنی ہیں جب تک دنیا میں معاشی تقسیم کا خاتمہ نہیں ہوتا.

Asif Muhammad Hasni
Facebook profile