زمین پر انسانوں  کی  زندگی کے آغاز کے بعد سے، بنی نوع انسان نے سوچنے کی صلاحیت کی مدد سے ہر قسم کے حالات کا سامنا کیا.   ذہنی انقلاب ایک عظیم پیش رفت تھی جس نے  انسان کو دیگر جانداروں  سے اعلی ہونے کا درجہ دیا ۔ اور  ذہنی انقلاب کے بعد انسان کے  سوچنے کا عمل تیار ہوا  اور اس کے نتیجے میں زبانیں بھی ابھر کر سامنے آئے۔
انسانوں نے سماجی ڈھانچہ تیار کیا اور قبائلی اتحاد بنائے  کیونکہ انسان سوچ سکتے ہیں اور اس امر کا استعمال کرتے   ہوئے انسانوں نے  سماجی ڈھانچے بنائے جو بنیادی طور پر  ابہام  پر مبنی تھیں اور جس نے انسان کو  دیگر جانداروں پر برتری حاصل کرنے میں مدد دی. عظیم تہذیبیں انسانی فراست اور نئے تصورات کے جنم لینے کے صلاحیت کا نتیجہ تھے.

اگرچہ زمین پر انسانوں کی کامیاب بقا کی  ایک وجہ  ترقی کے عمل اور نئے خیالات  ابھارنے کی صلاحیت ہے  لیکن باز اوقات انسانوں نے نئے خیالات اور نئی سوچ کو سخت ہاتھوں سے نمٹنے کی کوشش کی ہے. انسان نے  نئے نظریات اور متضاد آرا  کو ھمیشہ آہنی ہاتھ سے نمٹا چاہا۔ لیکن کچھ نظریات کی افادیت کو جاننے کے بعد، انہیں کھلی باہوں سے قبول بھی کیا. 
 زیادہ تر، ہم دوسروں کو برداشت نہیں کرتے جب انکی رائے ہمارے رائے متصادم ہو۔ ہم اپنے خیالات سے مختلف خیالات کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ سخت ہاتھوں سے نمٹنا چاہتے ہیں. جو ظاہر ہے کہ ہر نئے خیال پر اطلاق نہیں ہوتا لیکن وہ جو منظور  شدہ نظریات اور خیالات کو چیلنج  کرتے ہیں۔ سماجی معاشروں میں کچھ رجحانات وقت کے ساتھ مقدس بن جاتے ہیں۔ اگر آپ  ان کو چیلنج کرتے ہیں تو آپ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آئیے ایک نظر کچھ تاریخی مثالوں پر ڈالتے ہیں جہاں کچھ عظیم اشخاص کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ دوسروں سے مختلف خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے۔     
      
 ایک یونانی فلسفی سقراط کو محض اس وجہ سے  موت کی سزا دی گئ کیونکہ وہ اپنے  دور کے لوگوں سے مختلف سوچتا تھا۔ اس پہ الزام لگایا گیا کہ وہ نوجوانوں کے ذہنوں کو خراب کرتا ہے. سقراط کے خیالات عام انسانوں کی سمجھ کی سطح سے آگے تھے.  لوگوں نے  اسے برداشت نہیں کیا اور اس کے خلاف مہم چلانے شروع کر دی. لیکن آج ہم انہیں انسانی تاریخ کے ذہین ترین افراد میں سے ایک مانتے ہیں اور انہیں  فلسفہ میں ایک عظیم اہمیت حاصل ہے.  

نہ صرف عظیم مفکرین لیکن بہت سے سائنسدانوں اور صوفیاءکرام کو بھی اپنے  خیالات اور نظریات کے وجہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے نظریات  عوام الناس کے نظریات کے ساتھ تصادم میں تھے. 

گلیلیو گلیلی کوصرف اس بنیاد پر قید کیا گیا کیونکہ انہوں نے کوپرنیکس تیوری کی حمایت کی تھی. کوپرنیکس نے کہا تھا  کہ نظام شمسی کا مرکز سورج ہے. گلیلیو نے اس نظریے کی حمایت کی اور اس لیے انہیں جیل میں بند کردیا گیا  اور نظریہ کوپرنیکس کے لیے اپنی حمایت کی وجہ سے پھر گھر میں نظر بند کیا گیا. مذہبی عناصر کے وجہ سے گلیلیو  کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے نزدیک یہ ایک ایسا نظریہ تھا جو ان کے عقائد پہ سوال کر رہا تھا۔ کیونکہ ایک عقیدہ عام طور پر عوام میں پایا جاتا تھا کہ زمین نظام شمسی کا مرکز ہے۔
       آج، یہ سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نظام شمسی کا مرکز سورج ہے اور گیلیلیو کو ایک حقیقت کی حمایت کرنے کے لئے سزا دی گئی. 

     آئزک نیوٹن نے جب زمین میں کشش ثقل دریافت کیا تو لوگوں نے  سختی سے اسکی مخالفت کی۔ وہ اِس پر ہنسیں اور اس  سے کہتے تھے کہ اگر زمین میں کشش ثقل ہیں جو ہر چیز کو اپنے طرف کھینچ لیتی ہے تو پھر پرندے ہوا میں کیسے اڑتے ہیں۔ وہ کیوں گرتے نہیں؟

  خیالات اور نظریات کے علاوہ بعض اوقات لوگ نئی ایجادات کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ پرنٹنگ پریس یوہانس گوٹن برگ کی طرف سے ایجاد کیا گیا تھا. یورپی ممالک نے اس ایجاد سے کافی فائدہ اٹھایا۔ لیکن  سلطنت عثمانیہ  کے علماء نے اسے مسترد کر دیا اور لوگوں کو اس سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی خاص طور پر مذہبی کتابوں کے لئے  اس کے استعمال سے گریز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔  

      مشہور شاعروں اور برصغیر کے صوفیاء کرام کو بھی ان کے کاموں کے  وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ صوفی شاعر بابا بللہی شاہ اور شاہ عبد لطیف بٹھاہی کو اپنے شھوری سفر میں لوگوں کے حوالے سے پسں خیالات کا سامنا کرنا پڑا۔ 

       علامہ محمد اقبال کو بھی ان کی مشہور نظم 'شکوہ' کے لیے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہوں نے  پھر   'جواب شکوہ'  لکھ کر مخالفین کو خاموش کرایا. 

        نئے خیالات جب عوام الناس میں موجود منظور شدہ عقائد کے بر عکس ہو تو پھر انہیں زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان خیالات کا اظہار کرنے والے لوگوں کو اکثر دھمکیاں دی جاتی ہیں. اور کچھ تو اپنی جان بھی گنواتے ہیں. 

 کہا جاتا ہے کہ جب امیر تیمور نے فارس پر حملہ کیا، تو فارس کے دانشور اور علماء کو  اس کے سامنے لانے کے لئے کہا گیا۔  فارس کے دانشور مسلم دنیا میں مشہور تھے اسلیے امیر تیمور ان کے ساتھ ایک مکالمہ کرنا چاہتا تھا۔ کچھ لوگ اس کے سامنے لائے گئے. ان کے ساتھ  مکالمہ کرنے کے بعد، امیر تیمور رنجیدہ ہوئے ۔ ان کے مطابق  ان لوگوں میں حکمت کا فقدان تھا ۔    

   پھر کسی نے انہیں بتایا کہ فارس کے عظیم دانشوروں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور وہ اپنے جان کی سلامتی کے لیے چپے ہوے ہیں ۔ امیر تیمور نے  انہیں تلاش کرنے کے لئے کہا. فارس کے عظیم شاعر اور دانش بشمول حافظ شیرازی کو ان کے سامنے لایا گیا. امیر تیمور نے جب ان سے مکالمہ کیا تو کافی حد تک ان کے دانش سے متاثر ہوئے. پھر امیر تیمور نے دریافت کیا کہ ایسے عظیم دانشوروں پہ  کیوں کفر کے فتوے جاری ہوے. حافظ شیرازی نے جواب میں بتایا کہ جب یہ دانشور اپنے طریقے سے کائنات اور خدا کے تخلیقات کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ بجائے ان کی بات سمجھنے کے ان پر کفر کے فتوے جاری کر دیتے ہیں. 

 مولانا جلال الدین  رومی،جو ایک عظیم ولی تھے اور  جن کے عظیم کام سو  سے زائد ممالک میں نصاب کا حصہ ہیں. 
جب انہوں نے اپنے استاد شمس تبراز کے ساتھ اپنےصوفیانہ سفر کا آغاز کیا تب انہیں بھی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ رومی، جو کے محبت کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں،انہیں بھی روشن خیالی کی بلند ترین چوٹیوں تک پہنچنے کے لیے لوگوں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑا ۔  

آج ھم ان لوگوں کے کام کو سراہتے ہیں  لیکن جب یہ لوگ ذندہ تھے تب کیوں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. اب بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے نظریات سے مختلف نظریات رکھنے والے افراد کو برداشت نہیں کر تے۔

 پر جب ھم دنیا میں ترقی اور خوشحالی کی بات کر تے ہیں تو یہ سب ایسے لوگوں کی وجہ سے ممکن ھو سکا ہے جنوں نے کچھ نیا سوچنے اور کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا. 
  
ہمیں ایک ایسی دنیا کی تخلیق کرنی چاہیے جہاں ترقیاتی سوچ کو خیر مقدم کیا جائے اور اختلاف رائے کو  برداشت کیا جائے؛ نہ کہ سختی سے کچلا جائے۔

"میں آپکے بات سے اختلاف رکھ سکتا ہوں لیکن مرتے دم تک اپنے رائے رکھنے کی آپکے حق کی دفاع کرونگا. "
والٹیر


تحریر: آصف محمد حسنی