تحریر :آصف محمد حسنی



جب ہم غلامی کی بات کرتے ہے تو ہماری ذہن میں ایک ایسے شخص کی تصویر آجاتی ہے جو زنجیروں میں جکڑا ہُوا ہو . اُسے حركت کرنے کی اجازت نہیں اور اسکا مالک اس سے بس کام کرواتا ہے . غلامی کا سوچ کے ہم اپنے ذہن میں کچھ ایسی تصویر  بناتے ہے . دَر حقیقت یہ غلامی کی بس اک قسِم ہے . اور ایک انسان کو اور بھی بہت سےغلامی کے قسموں کا سامنا کرنا پڑ تاہے









سب سے زیادہ تباہ کن غلامی کی قسم جس سے ایک انسان گزر سکتا ہے وہ ہے ذہنی غلامی . ہر وہ انسان جو ذہنی غلامی کا شکار ہے وہ ایک ایسی زندگی گزار رہا ہوتا ہے جو وہم اور دھوکے سے دو چار ہوتا ہے.



ذہنی غلامی کے وجہ سے ہم ان چیزوں کی بھی دفاع کرتے ہیں جو شاید حقیقتاً وجود بھی نہ رکھتے ہو اور شاید ہم نے کبھی اُن چیزوں کو اپنی مرضی سے اختیار ہی نہ کیا ہو . ہمیں فرمانبردار بنایا جا تا ہے اور اگر ہم نہ بنے تو نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے.



ایک بچہ پیدائش کے وقت ہر قسِم کے ذہنی زنجیروں سے آزاد ہوتا ہے . نہ تو وہ دنیا کے کسی قسِم کے رسم و رواج سے واقف ہوتا ہے نہ ہی وہ کسی سے نفرت کرتا ہے . وہ پیدا ہوتا ہے اپنی زندگی جینے کے لئے لیکن پیدا ہوتے ہی ہم اسکے ہر ایک چیز کا تعین کر دیتے ہے . اس کی قوم، اس کی زات، اسے کونسی رسم کو اپنانا ہے، کیسے جینا ہے ہر اک چیز اسکے مرضی کے بغیر اس پر مسلط کیا جاتا ہے اور پھر  وہ انسان ساری زندگی ایک ایسی شخصیت کی دفاع کرتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور جو اس نے کبھی مرضی سے اختیار ہی نہیں کیا.



ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے کیوں بدتر ہے ؟ کیوں کہ ایک انسان جو جسمانی طور پر غلام ہوتا ہے وہ اپنے غلامی کا اعتراف بھی کرتا ہے اور اس سےنجات حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے . لیکن ایک انسان جو ذہنی غلامی کا شکار ہو وہ اپنی ذہنی غلامی کو پہچاننا تو دور کی بات، اگر کوئی اسے اسکی ذہنی غلامی سے متعارف کراتا ہے تو بجائے اپنے غلامی کو پہچاننے کے وہ اس شخص کو اپنا دشمن تصور کرنے لگتا ہے. . ذہنی غلامی ایک ایسی کیفیت ہے جہاں ایک غلام اپنے زنجیروں سے محبت کرتا ہے . اپنی زنجیروں کو چومتا ہے





فرمانبرداری جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو غلامی کی شکل اختیار کر لیتی ہے . پھر انسان نہ تو اپنے مرضی سے سوچ سکتا ہے نہ ہی اپنے لیے اپنی مرضی سے کچھ کر سکتا ہے . کیونکہ اسے ہر حال میں فرمانبردار رہنا ہے اور جو اسے کہنے کو، کرنے کو اور سوچنے کو کہا جائے اس سے بڑھ کر اسکے اختیار میں کچھ نہیں ہوتا. یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ایک انسان اپنی غلامی کو فرمانبرداری سمجھ کے محبت کرنے لگتا ہے .






جب ایک انسان تنقید سے گھبراتا ہے تو وہ اس سے بچنے کے لیے وہ سب کرتا جسے دیکھ کر سب اسے اچھا سمجھے اور اچھا کہے. وہ پھر ایسا کچھ بھی نہیں کرتا جس کے وجہ سے کوئی آسے برا کہے. کیوں کہ اسے تنقید سے بچنا ہے اور تعریف کا بھوکا ہے اس لیے وہ اِس حد تک فرما بردار ہوجاتا ہے کے ایک غلام کی سی حیثیت ہوتی ہے اسکی.



کہا جاتا ہے جب مشہور صوفی بزرگ شمس تبریز بغداد سے کونیاجانےکے لیے نکلتے ہیں تو وہاں ایک بندہ انہیں کافی منت سماجت کرتا ہے کہ شمس اسے اپنا ساتھی بنائے اور اسے اپنے ساتھ کونیا لیےکر جائے تاکہ وہ شمس کے ساتھ صوفیانہ سفر کا آغاز کر ے لیکن شمس تبریز اسے ساتھ لے جانے سے منع کر دیتا. اس شخص کے اصرار کرنے پر شمس تبریز اسے ایک موقع دیتا ہے اور ایک شرط رک دیتا ہے جس کے پورے کرنے پر وہ اس شخص کو اپنے ساتھ لے جانے پر راضی ہوجائے گا. وہ شخص خوش ہو کر شمس سے شرط دریافت کر تا ہے تو شمس تبریز اسے کہتے ہیں کہ بازار جا کر شراب خرید کر لے آئے. وہ شخص تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ایسا کرنے سے معذرت کرتا ہے تو شمس تبریز اس سے وجہ معلوم کرتے ہیں. اس پر وہ شخص بتاتا ہے کہ اگر کسی نے شراب خریدتے وقت اسے پہچان لیا تو وہ غلط سوچنے لگے گا اور اسکے بارے میں غلط راہے بنا لے گا. شمس تبریز یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ جو انسان تعریف کا اور دوسروں کے سوچ کا محتاج ہو وہ میرا ساتھی نہیں بن سکتا. اور کہا جاتا ہے جب شمس تبریز نے یہی کام مولانا جلال الدین رومی سے کرنے کو کہا تو مولانا رُومی نے وجہ تک دریافت نہ کی اور ایسا کرکے آگہے.


ایک انسان اور ایک مشین دونوں الگ چیزیں ہے . دونوں میں فرق ہے . مشین میں حکم درج کیا جاتا ہے پھر اسی حساب سے کام کرتا ہے . وہ خود نہیں سوچ سکتا . بغیر حکم کے نہیں چل سکتا . لیکن ایک انسان میں سوچنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے . وہ سوچ سکتا ہے . سمجھ سکتا ہے . کسی حکم کو ماننے یانہ ماننے کی صلاحیت رکھتا ہے . تو پھر ایسا کیوں ہے معاشرے کو فرمان بردار لوگ پسند ہے . وہ جو معاشرے میں پاہی جانے والے زنگ آلود رواجوں سے باغی ہوجاتے ہے ان لوگوں سے کیوں نفرت کا اظہار کیا جاتا  ہے ؟






ایک انسان جو اپنی مرضی سے زندگی بصر کرنا چاہتا ہے، اپنے خواب پورے کرنا چاہتا ہے . وہ اپنی زات سے کسی کو تکلیف نہیں دیتا ہے . لیکن اگر اسکے خواب ہماری تہہ شدہ سماجی معیار سے باہر ہو تو ہم اس سے کیوں نفرت کا اظہار کرتے ہیں ؟ خاندان اور سماج اس کے اور اس کے خوابوں کے درمیان کیوں دیوار بن کے کڑھے ہوجاتے ہیں؟ . کیوں اسے فرمان بردار پنجرے میں بند اک پرندہ بنانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے .






ہمیں پنجرے میں قید پرندے کیوں اچھے لگتے ہیں؟ وہ پرندے جو آزادی سے ہوا میں اڑتے ہیں، درختوں کے ٹہنیوں پر بیٹھتے ہیں کیوں ہم ایسے پرندوں کو دیکھ کے خوشی کا اظہار نہیں کرتے؟






تھاریخ گوا ہے وہ لوگ جو سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،   جو اپنے خواب پُورا کرنا چاہتے ہیں، سماج کے زنگ آلود روایات سے باغی ہوجاتے ہیں، انہیں ہمیشہ دشمنی اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہیں.


لیکن یہی لوگ دنیا میں انقلاب اور تبدیلیاں لاتے ہیں، جن میں سوچنے کی اور سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہیں . یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذہنی زنجیروں کو تھوڑ کر جیتے ہیں اور پھر تاریخ میں اپنے لئے ایک الگ مقام بنا تے ہیں .






’ انسان پیدا آزاد ہوتا ہے لیکن ہر طرف وہ زنجیروں میں جکڑا ہُوا ہے .'






روسیسو